Waters of Life

Biblical Studies in Multiple Languages

Search in "Urdu":
Home -- Urdu -- John - 001 (Introduction)
This page in: -- Albanian -- Arabic -- Armenian -- Bengali -- Burmese -- Cebuano -- Chinese -- Dioula -- English -- Farsi? -- French -- Georgian -- Greek -- Hausa -- Hindi -- Igbo -- Indonesian -- Javanese -- Kiswahili -- Kyrgyz -- Malayalam -- Peul -- Portuguese -- Russian -- Serbian -- Somali -- Spanish -- Tamil -- Telugu -- Thai -- Turkish -- Twi -- URDU -- Uyghur -- Uzbek -- Vietnamese -- Yiddish -- Yoruba

Next Lesson

یُوحنّا کی اِنجیل - نُور تاریکی میں چمکتا ہے

کتابِ مقُدّس میں مُندرج، یُوحنّا کے مطابق مسیح کی اِنجیل پر مبنی سِلسِلۂ اسباق

پیش لفظ


مسیح نے اپنے شاگردوں کو اپنی گواہی پیش کرنے کے لیے بُلایا۔آپ نے اپنی سوانح حیات خود نہیں لکھی اورنہ ہی کلیسیاؤں کوکوئی خط بھیجا۔لیکن آپ کی شخصیت نےآپ کے پیروؤں کے دلوں پر گہرا اثرڈالاجنہیں رُوحُ القُدس نے اُن کے خداوند یسوع مسیح کی تمجید کی رغبت دلائی۔انہوں نےآپ کی محبت،حلیمی،موت اور مرُدوں میں سے جی اُٹھنے میں خدا کے اکلوتے بیٹے کا ساجلال دیکھا جوفضل اور سچائی سے معمُور تھا۔جہاں متّی،مرقُس اور لوقاجیسے مُبشّرین نے یسوُع کے اقوال اور اعمال اور خدا کی بادشاہی کی وضاحت کویسُوع کی آمد کا مقصد ٹھر ایا،وہاں یُوحناّ نےیسُوع کی اپنی باطنی شخصیت اور آپ کی مقدّس محبت کوواضح کیا۔اسی وجہ سے یُوحناّ کی انجیل کو اصل اِنجیل کہا گیا،جو کہ کتابِ مقدّس کی تمام کتابوں کا تاج ہے۔

اس انجیل کا مُصنِّف کون ہے؟

دوسری صدی کی کلیسیا کے بزرگ اس بات پرمُتّفِق رائے تھےکہ یسُوع کے شاگرد، یُوحناّ ہی اس انوکھی کتاب کے مُصنِّف ہیں۔مُبشّر، یُوحنّا نے اپنی اِس تصنیف میں کئی رسولوں کے نام درج کیے ہیں لیکن اُنہوں نے اپنے بھائی،یعقوب یا خود اپنا نام کہیں بھی نہیں لکھّاکیونکہ وہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ اُن کا نام اُن کے خداوند اور مُنجی کے ساتھ درج کیا جائے۔البتّہ فرانس میں لِیون کے بشپ آیریناؤس (Bishop Irenaeus of Lyon) نے صاف طور سے لکھاہےکہ خداوند یسُوع کے شاگرد ،یُوحناّجنہوں نے عشائے ربّانی کے موقعہ پر آپ کے سینہ پر اپنا سرجھُکایا تھا،و ہی اِس انجیل کے مُصنِّف ہیں جسے اُنہوں نے اُس وقت قلمبند کیا جب وہ شہنشاہ تراجن کے دورِ حکومت میں اناتولاہ کے اِفِسس شہرمیں خدمت کر رہے تےل(سنہ عیسوی ۹۸۔۱۱۷)۔

بعض ادبی نقّاد کے مطابق اِس اِنجیل کے مُصنِّف، یُوحنّا، وہ شاگرد نہیں ہیں جو یسُوع کے ساتھ تھے بلکہ وہ اِفِسس کی کلیسیاءکےا ایک بزرگ تھے جو یُوحناّ رسُول کے شاگرد تھے اور یہ کہ یہ اِنجیل بعد میں لکھی گئی تھی۔ یہ نقّاد محوِ خواب ہوا کرتےتھے اور خیالی پُلاؤ پکاتے تھے۔وہ سچائی کی روح سے نا واقف تھے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتی کیونکہ یُوحناّ رسُول نے اپنی اِنجیل بذاتِ خُود (بحیثیتِ مُتکلِّم) لکھّی جیسا کہ اُن کی تحریر سے واضح ہے:‘‘اور ہم نے اس کاجلال دیکھا’’۔لہٰذا اِس اِنجیل کا مُصنِّف یسُوع کی زندگی،مَوت اورمرُدوںمیں سے جی اُٹھنے کا چشم دید گواہ تھا۔اور وہ یُوحناّ کے ساتھی تھے جنہوں نےاِس اِنجیل کے آخر میں اس عبارت کا اضافہ کیا:‘‘یہی وہ شاگرد ہے جو ان باتوں کی گواہی دیتا ہے اور جس نے انہیں تحریر کیا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اسکی گواہی سچی ہے’’(یُوحناّ کی اِنجیل ۲۱: ۲۴)۔انہوں نے یُوحنّا کی اُن خُصوصیات کو واضح کیا جو اُن کی شخصیت کو دوسرے رسُولوں سے الگ ظاہر کرتی تھیں،جیسے یہ کہ یسُوع یُوحناّ سے بہت پیار کرتے تھے اور پہلی عشائے ربّانی کے وقت آپ نے اُنںخص اپنےسینہ پر جھُکنے دیا۔اوریُوحنّا ہی وہ واحد شخص تھے جنہوں نےیسُوع سےآپ کے پکڑوانے والے کے بارے میں اِن لفظوں میں پوچھنے کی جسارت کی تھی:‘‘ اے خداوند، وہ کون ہے(جو آپ کو پکڑوائے گا؟)’’ (یُوحنّا کی اِنجیل ۱۳: ۲۵)۔

جب یسُوع نے یُوحناّ کو اپنی پیروی کرنے کے لیے بلایاتب وہ ایک نَو جوان شخص تھے۔وہ بارہ شاگردوں کے حلقہ میں عمر میں سب سے چھوٹے تھے۔مچھلی پکڑنا اُن کا پیشہ تھا۔اُن کے باپ کا نام زبدی تھا اور ماں کا نام سلومی تھا۔وہ اپنے خاندان کے ساتھ تبریاس کی جھیل کے ساحل پر بَیت حِسدہ میں رہتے تھے۔وہ پطرس،اندریاس،اپنے بھائی یعقوب،فِلِپُس اور نتنی ایل کے ساتھ مل کر دریائے یردن کی وادی میں بپتسمہ دینے والے یُوحناّ کو ملنے گئےجولوگوں کو توبہ کرنے کی تلقین کر رہے تھے۔جولوگ عجلت سےاُن کی طرف جا رہے تھے ان میں زبدی کے بیٹے، یُوحناّ بھی شامل تھے۔اُنہوں نے بپتسمہ دینے والے یُوحنّا سے معافی کے لیے اور اُن کے ہاتھوں دریائے یردن میں بپتسمہ لینے کے لیے گزارش کی۔ ممکن ہے کہ یُوحناّ اور سردار کاہن، اناس کے خاندان کاآپس میں خاندانی رشتہ تھا اور وہ ایک دوسرے سے واقف تھے اور اُنیںن محل میں داخل ہونے کا حق بھی حاصل تھا۔ لہٰذااُنہیں کاہن کے خاندان کا قُرب حاصل تھا۔اسی وجہ سے اُنہوں نے اپنی اِنجیل میں ایسی باتیں بیان کی ہیں جنہیں دوسرے مُبشِّروں نے زیرِ تحریر نہیں لایا، جیسے بپتسمہ دینے والے یُوحنّا نےیسُوع کے بارے میں کہا کہ آپ خدا کا برہ ہیں جو ساری دُنیاکے گناہ اٹھالے جاتے ہیں۔ اس طرح رُوح ُالقُدس کی رہنمائی سے یُوحناّ رسُول ایسے شاگرد بنے جنہوں نے دوسرے سب شاگردوں کی بہ نسبت اپنے خداوند یسُوع اورآپ کی محبت کو سب سے زیادہ سمجھا اور محسوس کیا۔

یُوحناّ اوردوسرے تین مُبشِّرو ں کا آپسی تعلق

جب یُوحناّ نے اپنی اِنجیل تحریر کی تب متّی،مرقُس اور لُوقا کی اناجیل لکھی جا چکی تھیں اور کلیسیاہ میں کچھ عرصہ سے رائج بھی تھیں۔اِن تینوںمُبشِّروں نے اپنی تصانیف قدیم عبرانی نُسخہ کے مطابق لکھیں جس میں رسُولوں نے متّی کے ہاتھوں یسُوع کے اقول اِکٹھّے کیے تھے تاکہ وہ ضائع نہ ہو جائیں،خصوصاً اس وقت جب کہ عرصہ گزر چُکا تھا اورتب بھی خداوند واپس نہیں لوٹے تھے۔بہت ممکن ہے کہ یسُوع کے اعمال اور آپ کی زندگی کے حالات الگ مجموعہ میں فراہم کیے گیے تھے۔اِن مُبشِّروں نے ان نوِشتوں کو اپنی اصلی حالت میں مُنتقل کرنےمیں نہایت احتیاط سے کام لیا۔ لُوقا، جو کہ ایک طبیب تھے، دوسرے ذرائع پر منحصررہے کیونکہ وہ یسُوع کی ماں، مریم اور مختلف چشم دید گواہوں سے مل کر اُن کے بیانات قلمبند کرچُےع تھے۔

البتّہ یُوحناّ ،مندرجہ بالا ذرائع کےعلاوہ بذاتِ خود ایک اہم ذریعہ تھے۔وہ اُن خبروں اورمقالات کو دہرانا نہیں چاہتے تھےجن سے کلیسیا واقف تھی بلکہ اُن میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔جہاں پہلی تین اناجیل میں یسُوع نے گلیل کے علاقہ میں کیے ہُوئے کارنامے درج کیے گیے ہیں اورآپ کی ساری خدمت کے دور ان، یروشلم میں آپ کی صرف ایک آمد کا ذکر کیا گیا ہےجہاں آپ اپنی مَوت سے دوچار ہُوئے،وہاں چوتھی اِنجیل ہمیں وہ سب بتاتی ہے جویسُوع نے یروشلم میں اپنی گلیلی علاقہ کی خدمت سے قبل،اُس کے دوران اوراُس کے بعدکیا۔یُوحناّ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یسُوع اپنے ملک کے صدر مقام میں تین موقعوں پر موجود تھےاور ہر بار قوم کےرہنماؤں نے اُنہیں قبول نہ کیا۔یہ ماالفت اِس حد تک بڑھ گئی کہ انہوں نے آپ کو صلیب پر چڑھانے کے لیے رُومیوں کے حوالے کر دیا۔لہٰذا یُوحناّ کی خُوبی اور اہمیت یہ ہے کہ اُنہوں نےیروشلیم شہرمیں یہودیوں کے درمیان مسیح کی خدمت تفصیل سے بیان کی ہے۔یہ وہی شہر ہے جو پرانے عہدنامہ کے معاشرہ کا گہوارہ رہا ہے۔

چوتھے مُبشِّر نے اپنی اِنجیل میں یسُوع کے معجزات کو زیادہ اہمیت نہیں دی بلکہ اُن میں سے صرف چھ کا ذکر کیا۔آخر یُوحناّ اِس سے کیا واضح کرنا چاہتے تھے؟اُنہوں نے یسُوع کے الفاظ کو اُس شخص کے انداز میں پیش کیا جو کہتا ہے:‘‘میں ہوں’’ اور اس طرح اُنہوں نے یسُوع کی شخصیت کوواضح کرنے کی کوشش کی۔پہلے تین مُبشِّروں نے یسُوع کے کارناموں اور زندگی کے حالات کے تذکرہ پر زیادہ توجہ دی،لیکن یُوحناّنے ہماری آنکھوں کے سامنےیسُوع کی پُر جلال شخصیت کا خاکہ کھینچا۔لیکن صرف یُوحناّ کی ہی ایسے الفاظ تک رسائی کیسےہُوئی جو یسوع نے اپنے بارے میں استعمال کیے تھےلیکن وہ دوسرے مُبشِّروں کو دستیاب نہ ہو سکے؟دراصل خدا کے پاک رُوح نے پہلے پنتکُست کے بعد یہ الفاظ یُوحنّا کو یاد دلائے تھے۔کیونکہ یُوحناّ نے خودکئی موقعوں پر اقرار کیا تھاکہ یسُوع کے بعض کلام کی سچّائی شاگردوں کو آپ کے مرُدوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اوراُن پرپاک رُوح کے نزول کے بعد ہی سمجھ میں آ سکی۔اس طرح یُوحنّا کویسُوع نے اپنے متعلق کہے ہوئے اُن الفاظ کے معنی بعد میں سمجھ میں آئے جس میں ‘‘میں ہُوں’’ یہ فقرہ استعمال کیا گیا تھا۔یہ الفاظ اِس انوکھی اِنجیل کی امتیازی خصوصیات ہیں۔

یُوحناّ، یسُوع کے ان الفاظ کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جن میں تضاد پایا جاتا ہے،جیسےنُور اور تاریکی،رُوح اور بدن، سچائی اور جھوٹ،زندگی اورموت اور زمین کی باتیں اور آسمان کی باتیں وغیرہ۔ایسے متضاد الفاظ دوسری اناجیل میں مشکل سے پائے جاتے ہیں۔ لیکن کئی سالوں کےبعد جب یُوحناّ یُونانی تاثیر والے علاقہ میں رہتے تھےتب رُوح ُالقُدس نے اُنہیں خداوند نے کہے ہُوئےالفاظ یاد دلائے۔اُنہوں نے مُبشِّروں کو بتایاکہ یسُوع صرف سامی عبرانی زبان ہی میں نہیں بولتے تھے بلکہ دوسری قوموں کی خاطر یونانی فقرے بھی استعما ل کرتے تھے۔

یُوحناّ کی اِنجیل کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

یُوحناّ،یسُوع کوادبی،فِلسفیانہ یابلندتخیّل روحانی طور پہ پیش نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ انہوں نے دوسرے مُبشِّروں سے زیادہ آپ کی تجسیم،آپ کی کمزوریوں اورصلیب پر آپ کو لگی ہُوئی پیاس کے تذکرہ پر زیادہ توجہ دی۔اُنہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یسُوع صرف یہودیوں کے ہی نہیں بلکہ تمام نوعِ انساں کے نجات دہندہ ہیں کیونکہ آپ خدا کا برہ ہیں جو ساری دنیا کے گناہ اٹھا لےجاتا ہے۔اُنہوں نے ہم پر واضح کیا کہ خدانےتمام نوعِ اِنساں سے کیسی محبت کی۔

ہم نے بیان کی ہُوئی یہ تمام باتیں اِس اِنجیل کے خصوصی پیغام کی گہرائی تک پہنچنےکا طریقہ اور تصدیق (گواہی) ہیں کہ یسُوع مسیح خدا کا بیٹا ہیں۔آپ کی عارضی زندگی میں آپ کی ابدیت،آپ کی انسانیت میں آپ کی ایزدیت،اورآپ کی کمزوری میں آپ کا اختیارنظر آتا ہے۔لہٰذا یسُوع کی ہستی میں خدا خود لوگوں کے درمیان موجود تھا۔

یُوحناّ کی وضاحتوں کا مقصد یسُوع کو فلسفی یاصوفی کے طور پر جاننانہیں بلکہ مخلص ایمان کی بِنا پر اور رُوحُ القُدس کے ذریعہ آپ کوخدا وندماننا ہے۔اسی لیے اُنہوں نے اپنی اِنجیل کا اختتام ان مشہور و معروف الفاظ سے کیا:‘‘لیکن جو لکھے گئے ہیں ان سے غرض یہ ہے کہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع ہی مسیح ہے یعنی خدا کا بیٹا ہے اور اس پر ایمان لا کر اس کے نام سے زندگی پاؤ’’ (یُوحناّ کی اِنجیل ۲۰: ۳۱)۔ یُوحناّ کی اِنجیل کا مقصد یسُوع کی الوہیت پرایمان لانا ہے۔یہ ایمان ہم میں ایزدی،مقدّس اور ابدی زندگی پیدا کرتا ہے۔

یُوحناّ کی اِنجیل کس کے لیے لکھی گئی؟

مسیح کے متعلق سچے بیانات سے لبریز یہ کتاب بے ایمان لوگوں تک اِنجیل کا پیغام پہنچانے کے لیے نہیں لکھی گئی بلکہ اسے کلیسیا کو تقویت پہنچانےاوراُس کی رُوحانی پُختگی کے لیے لکھی گئی۔پَولُس نے اناتولیا میں کئی کلیسیائیں قائم کی تھیں اور جب وہ رُوم میں قید کیے گیے تب پطرس نے اِن ترک کی ہُوئی کلیسیاؤں میں جا کر ُان کی حوصلہ افضائی کی۔پطرس اور پَولُس کی مَوت کے بعد،شاید رُوم میں نیرو کی عقوبت کے زمانے میں،یُوحناّ نے اُن کی جگہ لی اوراُنہوں نے اُس وقت کے مسیحی مرکز، اِفِسس میں رہایش اختیار کی۔اُنہوں نے ایشیائے صغیرمیں مُنتشر مختلف کلیسیاؤں کی گلّہ بانی کی۔جو شخص اُن کے خطوط اور مکاشفہ کی کتاب کے دوسرے اور تیسرے ابواب کا مطالعہ کرتاہے وہ اِس رسُول کے اضطراب اور مقاصد کو سمجھ سکتا ہےجنہوں نے ہمیں اُس خدا کی محبّت جتائی جس کی تجسیم یسُوع مسیح میں ہُوئی۔اُنہوں نے ان فلسفیانہ ایمانداروں کا مقابلہ کیا جنہوں نے بھیڑیوں کی شکل میں یسُوع کے گلّہ میں گھُس کرآپ کی بھیڑوں کو کھوکھلے خیالات،سخت قوانین اورناپاک آزادی سے بد چلن کر دیا تھا کیونکہ وہ فضول خیالات سے سچّائی کو خلط ملط کرتے تھے۔

یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگردبھی اناتولیا میں رہتے تھےجو توبہ کرنے کی ترغیب دینے والے (یُوحنّا)کامُنجی ،یسُوع سے زیادہ احترام کرتے تھے اور اب بھی موعودہ مسیح کے انتظار میں بیٹھے تھے، یہ سوچ کر کہ آپ اب تک نہیں آئے ہیں۔یسُوع کی شخصیت کی وضاحت کر کے یُوحنّا نے مسیح کی مخالفت کرنے والی سبھی لہروں کی تردید کی ۔اُنہوں نے تمام مخالف ارواح کےخلاف آواز بلند کر کے گواہی دی:‘‘اور ہم نے اُس میں باپ کے اکلوتے بیٹے کا سا جلال دیکھا جو فضل اور سچّائی سے معمور تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ یُوحناّ کی اِنجیل زیادہ تر اُن غیر یہودی لوگوں تک پہنچائی گئی جو مسیح پر ایمان لائے تھے کیونکہ یُوحنّا نے انکے سامنے یہودی زندگی کے اُن پہلوؤں کوتفصیل کے ساتھ پیش کیا جن کے جاننے کی یہودیوں کو ضرورت نہ تھی۔مزید یہ کہ یُوحناّ نے اپنی اِنجیل میں یسُوع کےاُن الفاظ پر اکتفا نہ کیا جو اُس وقت کی ارامی زبان میں لکھے گئے تھےتاکہ اُنہیں دوسرے مُبشِّروں کی طرح یُونانی زبان میں ترجمہ کرنا پڑتا بلکہ اُنہوں نے اپنی کلیسیا میں رائج یُونانی فقروں کو چُنا اور اُن میں اِنجیل کی رُوح بھر دی اور یسُوع کے کلام کو رُوح ُالقُدس کی ہدایت کے مطابق ،خالص اور بے تکلُّف یُونانی زبان میں نہایت سچّائی کے ساتھ پیش کیا۔لہٰذا اُن کی اِنجیل میں تمام فنکارانہ کوشِشوں اور مبالغہ کی بجائے سادگی، گہری فراست اورفصاحت سے کام لیا گیا ہے۔ لہٰذا اِس اِنجیل میں رُوحُ القُدس نے ہمیں نہایت سادگی کے ساتھ صداقت کا خزانہ عنایت کیا ہے تاکہ ہرنَو جوان اس کے دائمی اور پائدارمعنی کو سمجھ سکے۔

یہ انوکھی اِنجیل کب لکھی گئی؟

ہم خداوند یسُوع کا شکربجا لاتےتے ہیں کہ آپ نے بہت سال پہلے مصر میں آثارِقدیمہ کے ایشیائی ماہرین کو توفیق دی جنہوں نے ؁ ۱۰۰ء میں پیپِرس کا ایک و رق ڈھونڈ نکالا جس پر یُوحنّا کی اِنجیل کاکچھ حِصّہ بالکل صاف حروف میں تحریر کیا ہُوا تھا ۔ اس دریافت کی بدولت طویل بحث اور زہریلی نکتہ چینی کی آگ ٹھنڈی ہو گئی َکیونکہ اِس تحقیق نے ثابت کر دیا کہ یوحنا کی انجیل ؁ ۱۰۰ ء میں نہ صرف ایشیائے صغیر میں بلکہ شمالی افریقہ میں بھی موجود تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اِنجیل رُوم میں بھی رائج تھی۔یہ سچائی ہمارے ایمان کو تقویت بخشتی ہے کہ یُوحناّ رسُول ہی نے رُوحُ القُدس سے معمور ہو کر اس انجیل کو قلمبند کیا۔

اسیہ اِنجیل کن مضامین پر ملمسب ہے؟

اِلہامی آسمانی کتابوں کے مضامین کوکسی نظام یا اُصول کے مطابق ترتیب دینا انسان کیلئے آسان بات نہیں ہےاور خُصُوصاً یُوحناّ کی اِنجیل کومختلف حِوّ ں میں تقسیم کرنا بہت ہی مشکل ہے۔اس کے باوجود ہم مندرجہ ذیل خاکہ پیش کرتے ہیں

۔۱۔ ایزدی نُور کا چمکنا (۱: ۱۔۴: ۵۴)۔    

۔۲۔ نُور تاریکی میں چمکالہے اور تاریکی اُسے کبھی مغلوب نہیں کر سکتی(۵: ۱۔۱۱: ۵۴)۔    

۔۳۔ نُور رسُولوں کے حلقہ میں چمکتا ہے (۱۱: ۵۵۔۱۷: ۲۶)۔   

۔۴۔ نُور تاریکی پر چھا جاتا ہے (۱۸: ۱۔۲۱: ۲۵)۔    

مُبشِّر یُوحناّ نے اپنے خیالات کوکڑیوں کے طور پر ایک رُوحانی زنجیرمیں باہم مربوط کیا جس میں ہر کڑی ایک یا دو اہم نظریات یا الفاظ پر احاطہ کیے ہُوئی ہے ۔یہ کڑیاں ایک دوسرے سے بالکل الگ تو نہیں کی گئی ہیں لیکن ان کے معنی بعض اوقات ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔یُوحناّ کے سامیانہ عبرانی خیالات اپنی گہری رُوحانی رُویت (بصارت) کے باعث یونانی زبان کی خوش طی ا اور زندہ دِلی کے ساتھ ایک انوکھے اور شاندار اتّحاد میں ہم آہنگ ہوتے ہںک۔خدا کا پاک رُوح آج تک اِس اِنجیل کےفقرے ہم پر واضح کرتا آیا ہے ۔یہ اِنجیل ہمارے لیے علم اور حکمت کا لازوال منبع بن گئی۔ جو کوئی اِس کتاب کا نہایت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرے گا وہ خدا کے بیٹے کے آگے سر نِگُوں ہو کرشکر گزاری کے ساتھ اپنی زندگی آپ کے لیے وقف کر دے گا اور ہمیشہ کے لیے مُخلصی پاکر آپ کی تمجید کرے گا۔

سوالات

۔۱۔ چوتھی اِنجیل کا مُصنِّف کون ہے؟

۔۲۔ چوتھی اِنجیل اور پہلی تین اناجیل میں آپسی تعلق کیا ہے؟

۔۳۔ یُوحناّ کی اِنجیل کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

۔۴۔ یہ انوکھی اِنجیل کس کے لیے لکھی گئی؟

۔۵۔ اِس اِنجیل کے مضامین کی ترتیب وار فہرست بنانا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟

www.Waters-of-Life.net

Page last modified on April 17, 2012, at 10:56 AM | powered by PmWiki (pmwiki-2.3.3)