Waters of Life

Biblical Studies in Multiple Languages

Search in "Urdu":
Home -- Urdu -- John - 028 (Jesus leads the adulteress to repentance)
This page in: -- Albanian -- Arabic -- Armenian -- Bengali -- Burmese -- Cebuano -- Chinese -- Dioula -- English -- Farsi? -- French -- Georgian -- Greek -- Hausa -- Hindi -- Igbo -- Indonesian -- Javanese -- Kiswahili -- Kyrgyz -- Malayalam -- Peul -- Portuguese -- Russian -- Serbian -- Somali -- Spanish -- Tamil -- Telugu -- Thai -- Turkish -- Twi -- URDU -- Uyghur? -- Uzbek -- Vietnamese -- Yiddish -- Yoruba

Previous Lesson -- Next Lesson

یُوحنّا کی اِنجیل - نُور تاریکی میں چمکتا ہے

کتابِ مقُدّس میں مُندرج، یُوحنّا کے مطابق مسیح کی اِنجیل پر مبنی سِلسِلۂ اسباق

حصّہ اوّل ۔ایزدی نُور کا چمکنا (یُوحنّا ۱: ۱ ۔ ۴: ۵۴)۔

ج ۔ مسیح کی یروشلیم میں پہلی تشریف آوری ۔ (یُوحنّا ۲: ۱۳۔ ۴: ۵۴) ۔ حقیقی عبادت کیا ہے؟

٤ - یسُوع سامریہ میں ﴿يوحنا ۴: ١- ۴٢﴾٠

أ- مسیح ایک زانیہ کو توبہ کرنےکی توفیق عنایت کرتے ہیں (یُوحنّا ۴: ۱۔۲٦)٠


یُوحناّ ۴: ۱۔٦
۔۱ پھر جب خداوند کو معلوم ہوا کہ فریسیوں نے سنُا ہے کہ یسُوع یُوحنّا سے زیادہ شاگرد کرتا ہے اور بپتسمہ دیتا ہے۔ ۲ گو یسُوع آپ نہیں بلکہ اسکے شاگرد بپتسمہ دیتے تھے۔ ۳ تو وہ یہودیہ کو چھوڑ کر پھر گلیل کو چلا گیا۔ ۴ اور اسکو سامریہ سے ہو کر جانا ضرور تھا۔ ۵ پس وہ سامریہ کے ایک شہر تک آیا جو سوخار کہلاتا ہے۔وہ اس قطعہ کے نزدیک ہے جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دیا تھا۔ ٦ اور یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔چنانچہ یسُوع سفر سے تھکا ماندہ ہو کراس کنوئیں پر یونہی بیٹھ گیا۔یہ چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔

بپتسمہ دینے والے یُوحنّا نے یسُوع کو یعنی اُس ابدی بادشاہ کو جو دنیا کی تاریخ پر حکمران ہے، "خداوند "کہا۔ وہ سزابھی دیتاہےاور فضل بھی بخشتا ہے۔وہ انکی رہنمائی بھی کرتا ہے اورعدالت بھی ۔یُوحنّا نے آپ کے جلال کو دیکھا اورآپ کو اِس عظیم الشان لقب سے نوازا۔

فریسی حرکت میں آ چُکے تھے اور جنگ کے لیے تیّار تھے۔یہودیہ میں مسیح نے عوام سے مخاطب ہو کر جو کلام پیش کیا وہ بے حد کامیاب ثابت ہُوا۔آپ نے یُوحنّا کی طرح لوگوں کواپنے گناہوں کا اقرار کرکے توبہ کرنے کی توفیق دی۔آپ کا یہ فعل ایسا تھا گویا آپ یُوحنّا کے جان نشین بن گیے ہوں(حالانکہ آپ خود بپتسمہ نہ دیتے تھے بلکہ آپ نے یہ ذمّہ داری اپنے شاگردوں کو سونپ دی تھی)۔یسُوع کی تعلیم کے مطابق پانی کا بپتسمہ رُوحانی بپتسمہ کی علامت ہونے کے علاوہ اور کوئی معنی نہ رکھتا تھا۔تب بھی آپ كی خِدمت كی وہ گھڑی اب تک نہ آئی تھی اور نہ ہی اب تک آپ نے کسی کو بپتسمہ دیا۔

جب فریسیوں کی مخالفت تیز ہو گئی تب یسُوع نے شمال کی جانب رُخ کیا۔آپ اپنے باپ کے منصوبہ کے مطابق جی رہے تھے۔شریعت کےاِن عالموں کے ساتھ تصادم کا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔یسُوع نے پہاڑی علاقہ کی راہ سے سفر کر تے ہُوئے گلیل جانے کے لیے چھوٹا راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی اور اِس طرح آپ سامریہ میں داخل ہُوئے۔

پرانے عہد میں سامری قوم کوکوئی جانا مانا فرقہ نہ سمجھا جاتاتھاکیونکہ وہ ایک مشترکہ نسل تھی جس کی رگوں میں اِسرائیلی خون کے ساتھ غیر قوموں کا خون بھی سرایت کرتا تھا ۔؁ ۷۲۲ ء قبل مسیح میں اسوریوں نے سامریہ پرحملہ کیا اور ابرہام کی نسل کے بیشتر لوگوں کو مسوپتامیہ میں جلاوطن کردیا اوردوسرے فرقوں کو سامریہ میں بسا دیا۔اِس طرح یہاں مختلف قوموں کا میل جول ہُوا جس کی وجہ سے اُن کے مذہبی عقائد بھی مخلوط ہوگیے۔

یسُوع سکم کے قریب سوخار میں آئے،جو قوم کے ابتدائی بزرگوں کا مرکز تھا۔یہ وہی مقام تھا جہاں یشُوع نے خدا اور لوگوں کے ساتھ عہد باندھا تھا (پیدایش ۱۲: ٦ اوریشُوع ۸: ۳۰۔۳۵) ۔ وہاں ایک نہایت قدیم کنواں تھا جسے یعقوب کا کنواں مانا جاتاتھا (پیدایش ۳۳: ۱۹)۔ یوسف کی ہڈیاں بھی نابلس کے قریب کسی مقام پر دفن کی گںیی تھیں (یشُوع ۲۴: ۳۲)۔ یہ علاقہ پرانے عہد میں تاریخی مرکز بن گیا تھا۔

طویل سفر کی نقاہت اور دوپہر کی چلچلاتی دھوپ کی حرارت کے باعث یسُوع کنوئیں کے پاس بیٹھ گیے۔آپ نہ ہی کوئی وہمی صورت یا انسان کی شبیہہ میں کوئی ایزدی وجود تھے بلکہ حقیقی انسان تھے جو تھکے ماندہ اور پیاسے تھے ۔ ایک عام انسان جس میں انسانی کمزوریوں کے سبھی خواص موجود تھے۔

یُوحناّ ۴: ۷۔۱۵
۔۷ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی ۔یسُوع نے اس سے کہامجھے پانی پلا۔ ۸ کیونکہ اسکے شاگرد شہر میں کھانامول لینے کو گیے تھے۔ ۹ اُس سامری عورت نے اس سے کہا کہ تو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟(کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے)۔ ۱۰ یسُوع نے جواب میں اُس سے کہا اگر تو خدا کی بخشش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ کہ وہ کون ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پانی پلا تو تو اس سے مانگتی اور وہ تجھے زندگی کا پانی دیتا۔ ۱۱ عورت نے اس سے کہا اے خداوند تیرے پاس پانی بھرے کو تو کچھ ہے نہیں اور کنواں گہرا ہے۔پھر وہ زندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا۔ ۱۲ کیا تو ہمارے باپ یعقوب سے بڑا ہے جس نے ہم کو یہ کنواں دیا اور خود اس نے اور اسکے بیٹوں نے اور اسکے مویشی نے اس میں سے پیا۔ ۱۳ یسُوع نے جواب میں اس سے کہاجو کوئی اس پانی میں سے پیتا ہے وہ پھر پیاسا ہو گا۔ ۱٦ مگر جو کوئی اس پانی میں سے پئیگا جو میں اسے دونگا وہ ابدتک پیاسا نہ ہو گابلکہ جو پانی میں اسے دونگا وہ اس میں ایک چشمہ بن جائیگا جو ہمیشہ کی زندگی کے لیے جاری رہیگا۔ ۱۵ عورت نے اس سے کہا اے خداوند وہ پانی مجھ کو دے تاکہ میں نہ پیاسی ر ہوں، نہ پانی بھرنے کو یہاں تک آؤں۔

جب یسُوع کنوئیں کے پاس کھڑے تھے تب ایک سامری عورت پانی لینے آئی۔وہ دوسری عورتوں کی طرح صبح یا شام کے وقت نہیں بلکہ دوپہر کو آئی۔وہ کسی سے ملنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ بدنام تھی اِس لیے وہ جہاں کہیں جاتی تھی، سب لوگ اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یسُوع نے دور ہی سے اُس کے مضطرب دل کی کیفیت کا ندازہ لگا لیا اوراُس کی پاک ہونے کی پیاس کو بھی جان لیا۔آپ نے اسکی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اُس کے ساتھ نہ ہی دس احکام کوزیرِ بحث لایا اورنہ اُسے ڈانٹا،بلکہ صرف پینے کے لیے پانی مانگا کیونکہ آپ نے اُسے اییہ ہستی سمجھا جو آپ کوپانی پلا سکتی تھی۔لیکن جب اُس نے دیکھا کہ آپ یہودی ہیں تو وہ ہِچکچائی کیونکہ اسکی قوم اور یہودیوں کے درمیان مذہبی عقائد کے معاملہ میں دراڑ پڑ چُکی تھی۔ یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے برتنوں کو بھی آلودگی کے ڈر سے نہیں چھوتے تھے۔البتّہ یسُوع نےاُس سے پانی طلب کرکے اُس کا احترام کیا۔آپ کے اِس سلوک سے یہ واضح ہوگیا گویا اُن کے درمیان مذہبی معاملات میں کوئی رکاوٹ ہی نہ تھی۔

مسیح کا مقصد اُس گنہگار کےدل میں خدا کو جاننے کی خواہش کو اُبھارنا تھا۔چونکہ اس مقام پر کنواں موجود تھا لہٰذاپانی کے متعلق بحث کرنا زیادہ مناسب تھا۔اس سے اُسکے دل میں خداکی نعمت حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہُوئی۔آپ نے اسکے سامنے خدا کی محّبت کو بحث کا مدّعا بنایا۔یہ عدالت نہیں تھی جو اُسےجہنم کی راہ بتاتی بلکہ یہ خداکی نعمت تھی جو اُس کے فضل کے ماتحت اُس کے لیے تیّار کی گئی تهی۔واقعی یہ ایک شاندار معجزہ تھا!۔

فضل خود بخود ہوا کے ساتھ نہیں آتا بلکہ وہ صرف یسُوع کی ہستی میں پایا جاتا ہے۔آپ ہی فن اور ایزدی فضل بخشےا ہٰیں۔پھربھی اُس عورت نے آپ کو ایک عام آدمی سمجھا۔مسیح کی عظمت اب تک اسکی آنکھوں سے پوشیدہ تھی لیکن آپ کی خالص محّبت اسکے سامنے صاف طور سےواضح ہو چُکی تھی۔آپ نے اس سے کہا کہ آپ کے پاس زندگی کا پانی ہے۔جو آسمانی مائع آپ پیش کرتے ہیں، اُس سے انسان کے جان کی پیاس بجھتی ہے۔ لوگ محّبت اور سچائی کے لیے ترستے ہیں اور خدا کے پاس لَوٹ کرجانے کی خواہش رکھتے ہیں۔جو شخص یسُوع کے پاس آتا ہے اپنی پیاس بجھالیتا ہے۔

یسُوع ہر خواہش مند کو خدا کی نعمت عطا کرتے ہیں۔ہمیں اپنی حاجت ظاہر کرنی چاہیے، ٹھیک اُسی طرح جیسے یسُوع نے پانی کے لیے اپنی حاجت کا اظہار کیا۔جب تک اِنسان سر جھُکا کرمانگ نہ لے،وہ اس مفت میں دیئے جانے والےآسمانی پانی کو حاصل نہیں کر سکتا۔

یہ عورت یسُوع کو سمجھ نہ سکی۔اس نے عام طور پر کہا:"آپ کے پاس کنوئیں میں سےپانی نکالنے کے لیے کوئی برتن تو ہے نہیں اور کنواں گہرا ہے،پھر آپ مجھے پانی کیسے دے سکتے ہیں؟" ساتھ ہی ساتھ جب اس کویسُوع کی مہربانی اور محّبت کا تجربہ ہُوا تو وہ حیران ہو گئی۔اسکے پڑوسیوں کی طرح آپ نے اسے حقیر نہ جانا۔آپ جاہ و جلال میں اُس سے مختلف تھے،لیکن اپنے تقدُّس میں اس سے محّبت کرتے تھے۔وہ عورت کبھی بھی آپ کے جیسے پاک انسان سے نہ ملی تھی۔لہٰذا اُس نے پوچھا،’’کیا آپ ہمارے باپ یعقوب سے زیادہ عظیم ہیں؟کیاآپ معجزانہ طور پرہمیں نیا کنواں عنایت کر سکتے ہیں"؟

مسیح نے اُس پر واضح کر دیا کہ آپ دنیاوی پانی کے متعلق نہیں سوچ رہے،کیونکہ جو شخص قدرتی پانی پی کر اپنی جسمانی پیاس بجھاتا ہے وہ پھر پیاسا ہو گا۔جسم صرف پانی جذب کرتا ہے اور پھر اُسے خارج کر دیتا ہے۔

البتّہ یسُوع ہمیں زندگی کا پانی دیتے ہیں اور ہر رُوحانی پیاس بجھاتے ہیں۔مسیحی خدا کو ڈھونڈتے ہیں اور اُسے پالیتے ہیں۔وہ فلسفی نہیں جو سچائی تک پہنچے بغیر اس پر غور کرتے رہتے ہیں۔خدا نے انہیں ڈھونڈلیا ہے اور وہ اسکے جوہر سے واقف ہیں۔اُس کی محبّت ہمیشہ ہمارے لیے کافی ہوتی ہے۔اسکا نازل کیا ہُوا کلام ناگوار ( اکتانے والا) یا متروک نہیں ہوتابلکہ ہمیشہ جاری رہنے والا، سدا بہار،جدید،واضح اورخدا کے ادراک کو تازگی بخشنے والا ہوتا ہے۔ خدا کا کلام محض تصوّر نہیں بلکہ قوّت،زندگی،نور اور اِطمئنا ن ہوتاہے۔رُوح ُالقُدس خدا کی بخشی ہُوئی نعمت ہے اور یہی آسمانی پانی ہے۔

یسُوع نے تین بار اپنے دعوے کو دہرایا کہ صرف آپ ہی زندگی کا پانی دیتے ہیں۔یسُوع کے سِوا جو آپ کے مُنجّی ہیں ،کوئی مذہب یا جماعت،کوئی برادری یا دوستی آپ کی روحانی پیاس نہیں بُجھا سکتی۔

جو شخص خدا کی اِس نعمت کو حاصل کرتا ہے اُس میں رُوحانی تبدیلی آ جاتی ہے۔جو شخص پہلے پیاسا تھا وہ اب چھلکتا ہُوا چشمہ بن کر دوسروں کے لیے برکت کا باعث بن جاتا ہے اوراُنہیں فضل،خوشی، محّبت اور رُوح ُالقُدس کےمزید پھل عنایت کرتا ہے۔مسیح میں رہتے ہوئے ہمیں فضل پر فضل ملتا رہتا ہے اور ہم خود دوسرے کئی لوگوں کے لیے خدا کی نعمت بن جاتے ہیں۔

اس عورت نے محسوس کیا کہ یسُوع کوئی جادوگرنہیں ہیں بلکہ اسکے ساتھ سچ بول رہے ہیں۔اس نےآپ سے وه زندگی كا پانی مانگا۔حالانکہ اُس نے اپنی ضرورت ظاہر کردی پھر بھی یہ سوچتی رہی کہ یسُوع اب بھی زمین کےپانی کی بات کررہے ہیں۔اس نے سوچا کہ اگر اُسے وہ پانی مل گیا تو اسے سر پرگھڑا رکھ کر پانی بھرنے نہیں آنا پڑے گااور نہ ہی اُس کا اُن لوگوں سے پالا پڑے گا جو اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

دعا: زندگی کا پانی عنایت کرنے والے خداوند یسُوع،ہم خدا کے ادراک اوراُس کی محّبت کے پیاسے ہیں۔ہماری یہ پیاس بجھادیجیے۔ہماری بدکاری کو معاف کیجیے اورہمارے سب داغ مِٹا دیجیےتاکہ رُوح ُالقُدس ہم پر نازل ہو اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے۔ہم پانی کا چشمہ بن جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے دلوں میں اُنڈیلی ہُوئی آپ کی رُُوح سے اپنی پیاس بجھاسکیں۔ہمیں حلیم بن کر جینے،دعا کرنے،لوگوں کے ساتھ محّبت سے پیش آنے اور اپنےایمان پر قائم رہنے کی توفیق دیجیے۔

سوال ۳۲۔ یسُوع ہمیں کونسی نعمت عنایت کرتے ہیں؟اسکی خصوصیات کیاہیں؟

www.Waters-of-Life.net

Page last modified on April 17, 2012, at 11:05 AM | powered by PmWiki (pmwiki-2.3.3)