Waters of Life

Biblical Studies in Multiple Languages

Search in "Urdu":
Home -- Urdu -- John - 075 (The Jewish council sentences Jesus to death)
This page in: -- Albanian -- Arabic -- Armenian -- Bengali -- Burmese -- Cebuano -- Chinese -- Dioula? -- English -- Farsi? -- French -- Georgian -- Greek -- Hausa -- Hindi -- Igbo -- Indonesian -- Javanese -- Kiswahili -- Kyrgyz -- Malayalam -- Peul -- Portuguese -- Russian -- Serbian -- Somali -- Spanish -- Tamil -- Telugu -- Thai -- Turkish -- Twi -- URDU -- Uyghur? -- Uzbek -- Vietnamese -- Yiddish -- Yoruba

Previous Lesson -- Next Lesson

یُوحنّا کی اِنجیل - نُور تاریکی میں چمکتا ہے

کتابِ مقُدّس میں مُندرج، یُوحنّا کے مطابق مسیح کی اِنجیل پر مبنی سِلسِلۂ اسباق

حصّہ دوّم : نُور تاریکی میں چمکتا ہے (یُوحنّا ۵: ۱ ۔ ۱۱: ۵۴)٠

ج : یسُوع کی یروشلیم میں آخری آمد۔ (يوحنَّا ۷: ۱ ۔ ۱۱: ۵۴) تاریکی اور نُور کی علحدگی٠

۔۴ : لعزر کا زندہ کیا جانا اور اُس کے نتائج ( یُوحنّا ۱۰: ۴۰۔۱۱: ۵۴)٠

د : یہودیوں کی عدالتِ عالیہ یسُوع کو سزائے موت سناتی ہے (یُوحنّا ۱۱: ۴۵۔۵۴)٠


یُوحنّا ۱۱: ۴۵
۔۴۵ پس بہتیرے یہودی جو مریم کے پاس آئے تھے اور جنہوں نے یسُوع کا یہ کام دیکھا ،اُس پر ایمان لائے۔

مرنے کے بعد لعزر کی صحت بحال ہو گئی اور وہ کھانے پینے اور بولنے لگا۔ لوگ اُسے سڑکوں پر اور گھروں میں چلتا پھرتا ہُوا دیکھتےتھےاور اُس سے ملا کرتے تھے ۔کئی لوگ یسُوع کی عظمت سے حیرت زدہ ہوکر ایمان لائے کہ آپ زندہ خدا کے بیٹے ،مسیح ہیں۔اس طرح شاگردوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور لوگوں نے مریم کے گھر کا رُخ کیا تاکہ وہاں یسُوع کو لعزر کے ساتھ دیکھ سکیں۔وہ دراصل لعزر کو دیکھنے آئے تھے مگر یسُوع پر ایمان لاکر واپس لوٹے۔

یُوحنّا ۱۱: ۴۶۔۴۸
۔۴۶ مگر اُن میں سے بعض نےفریسیوں کے پاس جا کر اُنہیں یسُوع کے کاموں کی خبر دی۔ ۴۷ پس سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کرکے کہا: ہم کرتےکیا ہیں؟ یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے۔ ۴۸ اگر ہم اُسے یُوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر ایمان لے آئیں گے اور رُومی آکر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے۔

جن لوگوں نے یہ معجزہ دیکھا تھا اُن میں سے بعض لوگ عجلت سے فریسیوں کے پاس پہنچے تاکہ اُنہیں یسُوع کے کارناموں سے واقف کریں۔ وہ اب تک ایمان نہ لائے تھے۔"امیر آدمی" کی تمثیل میں اُن کے خلاف خدا کے انصاف کا اشارہ کیا گیا ہے۔ اُس امیر آدمی کو ابرہام نے جواب دیا تھا:"جب وہ موسیٰ اور نبیوں کی نہیں سُنتے تو اگر کوئی مرُدوں میں سے زندہ ہو جائے تب بھی وہ قائل نہ ہوں گے۔"(لُوقا کی اِنجیل ۱۶: ۳۱)۔ خدا کا پاک رُوح پتھر کے دلوں کو بدل نہیں سکتا جو یسُوع پر ایمان لانے سے انکار کرتے ہیں خواہ اُنہیں کتنے ہی عظیم معجزے دکھائے جائیں۔

فریسیوں کا مذہبی امور کی عدالتِ عالیہ میں کافی اثر و رسوخ ہُوا کرتا تھا۔یہاں تک کہ سردار کاہن بھی اُن کی ضد پوری کرتے تھے۔ اِس مجلس کےستّر اراکین کو اس مسلہ پر بحث کرنے کے لیے بلایا گیا۔صدوقیوں نے بھی ،جو قیامت سے انکار کرتے تھے، عدالت عالیہ کی مجلس منعقد ہونے کا خیر مقدم کیا۔لیکن اراکین کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے بلکہ الجھن میں پڑ گئے کیونکہ یسُوع نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا تھا کہ آپ کو گرفتار کیا جاتا۔البتّہ عید فسح سے قبل عوام میں مسیحی تحریک شروع ہُوئی جب ہزاروں کی تعداد میں زائرین دارُالخلافہ میں چلے آتے تھے۔جو بحث ہُوئی اس میں کونسل کے اراکین نے یسُوع کو محض انسان قرار دیا۔یہاں تک کہ آپ کو خدا پرست انسان یا نبی بھی نہ مانا۔ اس انکار کے باوجود وہ اس حیرت انگیز معجزہ کو خارج نہ کر سکے۔

کارروائی کے دوران کونسل کے ماحول پر خوف طاری تھا کہ کہیں شاہی حکاّم کو اس معاملہ کی خبر نہ لگے اور وہ دخل انداز ہوں۔مسیح کی طرح معجزے دکھانے والے شخص کے اطراف اس قدر بڑی بھیڑ کے جمع ہونے سےبغاوت رُونما ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس صورت میں رُومی حکمراں ہیکل کی کارروائی کو روکتے جو خدا کی قیام گاہ تھی۔اس کے بعد ہیکل میں عمل میں آنے والی سبھی خدمات جیسے قربانیاں، عبادت اور برکتیں ختم ہو جاتیں۔

یُوحنّا ۱۱: ۴۹۔۵۲
۔۴۹ اور اُن میں سے کائفا نام ایک شخص نے جو اُس سال سردار کاہن تھا، اُن سے کہا:تُم کچھ نہیں جانتے۔ ۵۰ اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔ ۵۱ مگر اُس نے یہ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ اُس سال سردار کاہن ہو کر نبوّت کی کہ یسُوع اُس قوم کے واسطے مرے گا۔ ۵۲ اور نہ صرف اُس قوم کے واسطے بلکہ اِس واسطے بھی کہ خدا کے پراگندہ فرزندوں کو جمع کرکے ایک کردے۔

جب کونسل میں اُلجھن اور ہنگامہ انتہا کو پہنچا تو سردار کاہن، کائفا کھڑا ہُوا اور قوم کے رہنماؤں کی نکتہ چنیو کرنے لگا اور اُن پر لاعلمی اور بے پروائی کا الزام لگایا۔اُسے یہ سب کہنے کا کچھ حق ضرور تھا کیونکہ وہ سردار کاہن ہونے کے ناتے کونسل کا صدر تھا۔تیل سے اُس کا مسح کیا گیا تھا جو کہ پاکیزگی کی علامت ہے لیکن وہ خلاف مسیح تھا۔ توقع یہ تھی کہ وہ پاک رُوح سے معمور ہوتا تاکہ خدا ، قوم کے سربراہ کے طور پر اُس کے ذریعہ بات کر سکے۔ سردار کاہن کے مرتبہ کے ساتھ نبوّت کا درجہ بھی جُڑا ہُواہوتا ہے پھر بھی وہ غلطی کر بیٹھا اوراُس نے تخیُّل آرائی سے کام لیا اور سب لوگوں کو جاہل (لاعلم) قرار دیا۔

جس قسم کا رُوح کائفا کے مُنہ سے بولا وہ فوراً واضح ہو گیا کیونکہ اس کے اندر سے شیطان بولا حالانکہ اس میں بھی خدا کی مصلحت تھی لیکن بظاہر وہ الفاظ خدا کی مرضی کے خلاف تھے۔اس میں شک نہیں کہ لوگوں کے حق میں یہ بہتر ہوتا کہ اُن کی بجائے خدا کا برّہ مر جاتا تاکہ وہ خدا کے غضب سے بچ جاتے اور ابدی زندگی پاتے۔ لیکن شیطان کا نمائندہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ایسے خیالات کا اظہار کر رہا تھا:"یسُوع کو مرنے دیا جائے تاکہ ہم رُومیوں کے غضب سے بچ سکیں۔" اس شیطانی پیش گوئی کے باعث یسُوع کے وہ الفاظ بجا ٹھہرتے ہیں کہ شیطان بہتیرے یہودیوں کا رُوحانی باپ ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے اور جھوٹ کا باپ بھی ہے۔

اس شیطانی ذہنیت کے باوجود،مُبشِّر یُوحنّا نے دیکھا کہ گو کائفا نے نہایت برا ارادہ ظاہر کیالیکن وہ صحیح معنوں میں ایزدی سچّائی تھی۔کائفا کو واضح کرنا تھا کہ یسُوع کی موت سب لوگوں کے لیے نجات کا باعث ہوگی۔لیکن اُسے اپنے" حاکمانہ" الفاظ کے اعلیٰ نتیجہ کا اندازہ نہ تھا۔دراصل وہ خود لاعلم اور لاپروا تھا کیونکہ وہ یسُوع پر ایمان نہ لایا تھا حالانکہ پاک رُوح نے اُسے یسُوع کی کفّارہ کی موت سے متعلق ایک جملہ کہنے کی ترغیب دی تھی۔وہ خود اپنے الفاظ کا مطلب سمجھ نہ پایا کیونکہ وہ کہنا کچھ اور چاہتا تھا لیکن بولا کچھ اور۔

مُبشِّر یُوحنّا نے اس بیان کا مطلب وسیع پیمانہ پر لیا کہ یہ الفاظ دنیا کی نجات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔یسُوع نے صرف اپنے لوگوں کے گناہوں کا کفّارہ ادا کرنے کے لیے اپنی جان نہیں دی بلکہ ہر قوم کے ہر معتقد کے لیے دی تھی۔وہ سب جو آپ پر ایمان لاتے ہیں، خدا کی اولاد بن جاتے ہیں چنانچہ مُنجی پر یقین کرنے سے وہ ابدی زندگی پاتے ہیں۔

ہمارے ایمان کا مقصد محض ہماری ذاتی نجات ہی نہیں بلکہ خدا کی تمام اولاد کا اتّحاد ہے تاکہ وہ مسیح میں ایک ہوں۔آپ کی محبّت مسیحیّت کی علامت اور قوّت ہے۔آپ کا نام آپ کے پیروؤں کو متّحِد رکھتا ہے۔جب وہ اپنے مرکز (یسُوع) سے جُڑ جاتے ہیں تب وہ ایک دوسرے سے بھی جُڑ جاتے ہیں۔آئیے ہم جاگ جائیں اور جلدی سے آپ کی طرف لوٹ چلیں اور یہ دریافت کر لیں کہ ہم خدا کے خاندان میں بھائی اور بہنیں ہیں۔یہ رشتہ دنیاوی رشتہ ناتے سے زیادہ قریبی ہوتا ہے۔

یُوحنّا ۱۱: ۵۳۔۵۴
۔۵۳ پس وہ اُسی روز سے اُسے قتل کرنے کا مشورہ کرنے لگے۔ ۵۴ پس اُس وقت سے یسُوع یہودیوں میں علانیہ نہیں پھرا بلکہ وہاں سے جنگل کے نزدیک کے علاقہ میں افرائم نام ایک شہر کو چلا گیا اور اپنے شاگردوں کے ساتھ وہیں رہنے لگا۔

کونسل کے بعض اراکین کائفا کی تلخ پیشگوئی سے تنگ آگئے تھے کیونکہ اُنہیں یسُوع سے ہمدردی تھی لیکن اکثریت یہ یقین کرکے خوش تھی کہ خدا نے کیفا کی معرفت بول کر اس دھوکے باز پر سزا کا حکم صادر کردیا اور قوم کو نجات بخشی۔کونسل نے اتفاقِ رائے سے سزا پر رضامندی ظاہر کی اور اور کائفا کی رائے سے اتفاق کیا کہ یسُوع کو قتل کیا جائے۔اس میں شک نہیں کہ حاضرین میں سے چند لوگوں نے جو زیادہ راستباز تھے، احتجاج کیا لیکن کسی نے اُن کی نہ سُنی۔مکاّرکائفا نے یسُوع کوخُفیہ طور پر قتل کرنے کا منصوبہ پیش کیا تاکہ لوگوں میں بلوہ نہ ہو اور اس طرح اُس نے اُنہیں گمراہ کیا۔

یسُوع کو اس سازش کا پتا لگ گیا اور شاید ایزدی الہام کے ذریعہ آپ کو واقفیت بھی ہوگئی تھی۔آپ کونسل کی زیرِ اختیار علاقہ سے باہر چلے گئے اور نبلس کے مشرق میں یردن کی وادی کے علاقہ میں جا بسے۔وہاں آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ اپنی قربانی اور دوبارہ جی اُٹھنے کی گھڑی کا انتظار کر تےرہے۔

میدانِ جنگ صاف تھا۔ہیکل کی صفائی کے بعد سے آپ کا کاہنوں سے جھگڑا،عالم شرع سے تنازع اور اور سبّت کے دن کی شفایابی کا اثر اور اب لعزر کے جِلائے جانے سے حالات انتہا کو پہنچ گئے۔چنانچہ عوام کے رہنماؤں نے خود اپنے محسن کو فوراً قتل کرنے کا قصد کر لیا۔

نُور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی اُسے کبھی مغلوب نہیں کر سکتی۔

عزیز بھائی!کیا تُم نے دیکھا ہے کہ مسیح نُور ہیں؟کیا آپ کی اِنجیل نے تمہارے دماغ کو روشن کیا ہے اور تمہارے دل کی تجدید کی ہے؟کیا یسُوع کی ابدی زندگی تُم پر طاری ہو چُکی ہے؟اور کیا آپ کی رُوح نے تمہیں توبہ کرنے اور اپنے گناہوں کا اقرار کرنے کی ترغیب دی ہے اور کیا اس رُوح نے تمہارے دل میں ایمان پیدا کیا ہے تاکہ تُم برکت پاؤ اور پاک بن جاؤ؟ اپنے دل کے دروازے کھول دو تاکہ مسیح کا رُوح تُم کو نکال لے اورتمہاری زندگی اور مستقبل مسیح کے لیے وقف کردے تاکہ تُم اپنی مرضی کے خلاف یسُوع کے دشمنوں کے ساتھ اُنہوں نے آپ کے خلاف کیے ہُوئے فیصلہ میں ہاں میں ہاں نہ ملاؤ۔بلکہ آپ کے شاگردوں کے ساتھ مل کر مقدّس خداوند کو جان لو تاکہ تُم اقرار کرو:"ہم نے اُس میں باپ کے اکلوتے بیٹے کا سا جلال دیکھا جو فضل اور سچاّئی سے معمور تھا"۔

دعا: خداوند یسُوع مسیح!ہم آپ کے شکرگزار ہیں کہ آپ نے خطرہ کی گھڑی میں بھی سچاّئی سے انکار نہ کیا؛ آپ نے ہمیشہ اپنے آسمانی باپ کو جلال بخشا۔ ہمارے کمزور ایمان اور تغافل کو معاف فرمائیے۔ہمیں آپ اپنے باپ کے ساتھ رفاقت میں شریک کیجیے تاکہ ہم ابدی زندگی میں جئیں اور متواتر آپ کی خدمت کرتے رہیں۔آپ کے پُر جلال فضل کی تمجید کے لیے ہماری زندگیاں قبول فرمائیے۔

سوال ۷۹۔ یہودیوں کی کونسل نے یسُوع کو قتل کیوں کیا؟

www.Waters-of-Life.net

Page last modified on April 07, 2012, at 03:41 PM | powered by PmWiki (pmwiki-2.3.3)