Waters of Life

Biblical Studies in Multiple Languages

Search in "Urdu":

Home -- Urdu -- John - 108 (The charge against Christ's royal claims)

This page in: -- Albanian -- Arabic -- Armenian -- Bengali -- Burmese -- Cebuano -- Chinese -- Dioula? -- English -- Farsi? -- French -- Georgian -- Greek -- Hausa -- Hindi -- Igbo -- Indonesian -- Javanese -- Kiswahili -- Kyrgyz -- Malayalam -- Peul -- Portuguese -- Russian -- Serbian -- Somali -- Spanish -- Tamil -- Telugu -- Thai -- Turkish -- Twi -- URDU -- Uyghur? -- Uzbek -- Vietnamese -- Yiddish -- Yoruba

Previous Lesson -- Next Lesson

یُوحنّا کی اِنجیل - نُور تاریکی میں چمکتا ہے

کتابِ مقُدّس میں مُندرج، یُوحنّا کے مطابق مسیح کی اِنجیل پر مبنی سِلسِلۂ اسباق

حِصّہ چہارم : نُور تاریکی پرچمکتا ہے (یُوحنّا ۱۸: ۱۔۲۱: ۲۵)٠

الف : گرفتاری سے لے کر تیزل و تکفین تک کے واقعات (یُوحنّا ۱۸: ۱۔۱۹: ۴۲)٠

۔۳ : ملک کی عدالت میں رومی گورنر کے روبرو یسُوع کی پیشی (یُوحنّا ۱۸: ۲۸۔۱۹: ۱۶)٠

الف : مسیح کے شاہی دعوؤں کے خلاف الزام (یُوحنّا ۱۸: ۲۸۔۳۸)٠


یُوحنّا ۱۸: ۲۸۔۳۲
۔۲۸ پھر وہ یسُوع کو کائفا کے پاس سے قلعہ کو لے گیے اور صبح کا وقت تھا اور وہ خود قلعہ میں نہ گیے تاکہ ناپاک نہ ہوں بلکہ فسح کھا سکیں۔ ۲۹ پس پیلاطُس نے اُن کے پاس باہر آکر کہا:تُم اِس آدمی پر کیا الزام لگاتے ہو؟ ۳۰ اُنہوں نے جواب میں اُس سے کہا کہ اگر یہ بدکار نہ ہوتا تو ہم اِسے تیرے حوالہ نہ کرتے۔ ۳۱ پیلاطُس نے اُن سے کہا:اسے لے جاکر تُم ہی اپنی شریعت کے موافق اس کا فیصلہ کرو۔ یہودیوں نے اُس سے کہا:ہمیں روا نہیں کہ کسی کو جان سے ماریں۔ ۳۲ یہ اِس لیے ہُوا کہ یسُوع کی وہ بات پوری ہو جو اس نے اپنی موت کے طریق کی طرف اشارہ کرکے کہی تھی۔

بعض یہودی یسُوع کو اُس وقت قتل کرنے کی سوچ رہے تھے جب آپ نے بیت حسدا میں ایک اپاہج کو شفا بخشی تھی (۵: ۱۸) لیکن یہودیوں کے رہنماؤں کی اکثریت نے یسُوع نے لعزر کو مرُدوں میں سے جِلانے کے بعد خفیہ طور پر یہ طے کر کیا کہ اب آپ کا کام تمام کر دیا جائے (۱۱: ۴۶)۔

جمعرات کی شب کو عدالتِ عالیہ کی دو اہم نشستیں منعقد ہُوئیں جس کا ذکر یُوحنّا نے نہیں کیا (متّی ۲۶: ۵۷۔۶۷ اور ۲۷: ۱)۔یہ یہودی تفصیلات یونانی سامعین کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں لیکن یُوحنّا نے یسُوع کے متعلق کہے گیے اس جملہ پر زور دینا زیادہ ضروری سمجھا جو رومی عدالت کے نمائندہ، پیلاطُس نے اُن فوجی کوٹھریوں میں کہا تھا جو ہیکل سے کچھ اُونچائی پر واقع تھیں۔صرف اسے ہی مجرموں کو سزا دینے یا بری کرنے کا حق حاصل تھا۔

جن یہودیوں نے اپنے خداوند کو پہچان لیا تھا وہ کسی غیر یہودی کی رہائش گاہ میں داخل ہوکرناپاک ہونے کے خوف سے پیچھے ہٹ گیے۔وہ اپنی مروجہ پاکیزگی برقرار رکھنا چاہتے تھے تاکہ اپنے خاندان کے ساتھ فسح کے برّہ کا گوشت کھانے میں شریک ہوتے حالانکہ وہ خدا کے حقیقی برّہ کو قتل کرنے جا رہے تھے۔

اس نازک اور فیصلہ کُن موقع پر جب کہ یسُوع گرفتار کیے جا چُکے تھے، پیلاطُس کی زندگی میں بنیادی تبدیلیاں ہوتے ہُوئے نظر آئیں۔اس کے ایک ساتھی کو جو کہ رومی جنرل تھا، قیصرِ رُوم نے بغاوت کا منصوبہ بنانے کے جرم میں برطرف کر دیا تھا۔یہ جنرل یہودیوں کی مخالفت کرتا تھا ۔اور اُس کے اس منصوبہ کا یہودیوں نے پردہ فاش کر دیا تھا۔ اس کے نتیجہ میں پیلاطُس کا پہلا اختیار کم ہو گیا جو اسے اس وقت حاصل تھا جب وہ یہودیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا کرتا تھا اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آتا تھا۔

جب یہودیوں نے یسُوع کو پیلاطُس کے پاس لایا تب گورنر فوراً باہر آیا اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟اس نے بحث میں زیادہ وقت صرف نہیں کیالیکن ان کی شکایتوں کا خلاصہ جان لیا۔پیلاطُس کا مُنہ با ڑ کر مسکرانا یسُوع کی جانب اس کے رویّہ کا مظاہرہ کرتا ہے کیونکہ آپ ایک ایسے بادشاہ تھے جس کے پاس نہ اسلح تھے، نہ فوج اور آپ گدھے پر سوار ہوکر یروشلیم میں داخل ہُوئے تھے۔لہٰذا آپ کی طرف سے رُوم کو کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔لیکن وہ یہودیوں کے مطالبہ کا قائل ہو گیا اور ان کے اصرار کے آگے جھُک گیا۔اس نے شروع ہی سے یسُوع کی گرفتاری میں مدد کرنے کے لیے ایک افسر کو،اس کے فوجی دستہ کے ساتھ ان کے حوالہ کر دیا تھا اور یہ مہم کامیاب رہی اور اب وہ قیدی اس کے رحم و کرم پر اس کے روبرو کھڑا تھا۔پھر بھی پیلاطُس نے پوچھا:” اس نے کیا جرم کیا ہے؟

یہودی بزرگوں نے صاف طور سے اعلان کیا :” اس سے پہلےہم نے اُس کے بارے میں جو کچھ کہا اس سے تو تُو واقف ہے۔ یہ شخص سیاسی مجرم ہے جو بغاوت کرنے پر آمادہ ہے۔ ہم اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہنا چاپتے۔ہم یہاں یہودی قوم کی نمائندگی کرنے کے لیے کسی باضابطہ ملاقات کے لیے نہیں آئے ہیں۔ہم اس کی مَوت چاہتے ہیں تاکہ لوگوں میں ہنگامہ برپا نہ ہو۔

پیلاطُس یہودیوں کے من موجی پن اور تعصُّب سے واقف تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس الزام کا اُن کی شریعت سے تعلق تھا اور یہ کہ وہ نہایت با اختیار اور پُر اقتدار مسیح کے منتظر تھے۔یسُوع نے ایسا کچھ نہ کہا تھا اور نہ کیا تھا جس کی وجہ سےآپ کو رومی قانون کے مطابق ملزم قرار دیا جاتا۔اس لیے اس نے پھر یسُوع کو ان کے حوالہ کر دیا اور کہا کہ وہ آپ کا اپنی شریعت کے مطابق انصاف کریں۔

اُن دِنوں، یہودیوں کی شریعت کی حکم عدولی کے لیے کسی کو سنگسار کرنے کا حق حاصل نہ تھا۔وہ یسُوع کو رومیوں کی عام عدالت میں پیش کر کے ذلیل کرنا چاہتے تھے کیونکہ یہودی، رومیوں کو ناپاک قوم سمجھتے تھے۔اس طرح غلاموں اور قاتلوں کو دی جانے والی سخت سے سخت سزا یسُوع کو دی جاتی یعنی لعنتی صلیب پر چڑھایا جانا۔اس سے یہ ثابت ہوتا کہ یسُوع خدا کے بیٹے نہیں ہیں جو طاقتور اور راستباز ہونا تھے لیکن اُن کے مطابق آپ کمزور اور کفر بکنے والے شخص تھے۔کائفا چاپتا تھا کہ آپ رومیوں کے ہاتھوں صلیب پر مر جاتے تاکہ ثابت ہو جائے کہ آپ مسیح نہیں تھے بلکہ فاصب اور مکّار تھے۔

یُوحنّا ۱۸: ۳۳۔۳۶
۔۳۳ پس پیلاطُس قلعہ میں پھر داخل ہُوا اور یسُوع کو بُلا کر اُس سے کہا:” کیا تُو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟” ۳۴ یسُوع نے جواب دیا کہ” تُو یہ بات آپ ہی کہتا ہے یا اوروں نے میرے حق میں تُجھ سے کہی؟ “ ۳۵ پیلاطُس نے جواب دیا:” کیا میں یہودی ہُوں؟تیری ہی قوم اور سردار کاہنوں نے تُجھ کو میرے حولہ کیا ۔ تُو نے کیا کیا ہے؟ “ ۳۶ یسُوع نے جواب دیا کہ “میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں۔اگر میری بادشاہی دنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ میں یہودیوں کے حوالہ نہ کیا جاتا۔مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔

سپاہیوں نے یسُوع کو فوجیوں کی کوٹھری میں بند کر دیا۔پیلاطُس نے جب یہودیوں کے الزام سُن لیے تب وہ یسُوع نے اپنے دفاع میں کہے ہُوئے الفاظ بھی خود آپ کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔پیلاطُس کو یہودیوں کے بیان پربالکل اعتقاد نہ تھا لیکن قانون کے تقاضہ کی بدولت اس نے مسیح سے پُوچھا: “کیا تُو یہودیوں کا بادشاہ ہے ؟میں نے اور کئی مسیحا دیکھے ہیں جو پوری طرح سے مسلح تھے، سیاہ داڑھی رکھتے تھے اور ان کی آنکھیں چمکدار رہتی تھیں۔تُو نہ لڑاکو ہے اور نہ تخریف پسند۔ تُو تو پریشان حال انسان نظر آتا ہے جو نہایت حلیم اور بے حد فروتن ہے۔پھر تُو بادشاہ بننے کے خواب کیسے دیکھ سکتا ہے؟ بادشاہ میں اختیار، قوّت اور سنگدلی کا پایا جانا ضوری ہوتا ہے۔

یسُوع کو یوں محسوس ہُوا کہ پیلاطُس کو آپ کے بادشاہ ہونے کے دعوے پر شک ہوا ہے؛ اس لیےآپ نے اس سے پُوچھا: “ کیا تیری فوج نے تجھے بتایا کہ کہ میرے شاگرد رات کو ان سے لڑے یا تیرے مخبروں نے کبھی تجھے بتایا کہ میں نے کبھی سیاسی نقطۂ نگاہ سےتقاریر کی ہوں یا یہ کہ تیراسوال صرف یہودیوں کے جھوٹ پر مبنی ہے؟گورنر کے لیے زیب نہیں دیتا کہ وہ جھوٹے الزامات پر دھیان دے۔

پیلاطُس آگ بگولہ ہو کر بولا:”کیا میں یہودی ہُوں؟ “گویا وہ یہ کہہ رہا ہو کہ میں اُن ضِدّی اور متعصُّب لوگوں کے درجہ تک کبھی نہ جھُکوں گا جو دن رات مذہبی نُکات پر بحث کرتے رہتے ہیں۔

اس طرح پیلاطُس نے اقرار کیا کہ اس نے یسُوع کو گرفتار نہیں کیا بلکہ یہودیوں کے سربراہوں اور قوم پروروں نے ایسا کیا۔۔تب اس نے مختصر طور پر پوچھا:” تُو نے کیا جرم کیا ہے؟ میں تیرے مُنہ سے سُننا چاہتا ہُوں تاکہ میں تُجھ پر الزام لگانے والوں کو جواب دے سکوں۔بتا، ورنہ تیری پِٹائی ہوگی۔سب کچھ سچ سچ بتا۔

تب یسُوع نے کچھ ایسے انداز میں سب کچھ سچ سچ بتا دیا جیسا کبھی اپنے شاگردوں کے سامنے بھی بیان نہ کیا تھا۔ آپ نے کہا:” خدا کی بادشاہی صرف اسی کی ہے۔ وہ خراج، یا اسلح یا ملازمتوں پر قائم نہیں کی جاتی جس سے دوسروں کا ناجائز طور پر فائدہ اُٹھایا جاسکے۔” جیسی دسروں کی بادشاہی ختم ہوتی ہے ویسی مسیح کی بادشاہی کبھی ختم نہ ہوگی۔یسُوع نے اپنے پیروؤں کو تربیت دی تھی کہ وہ تلوار سے وار نہ کریں، نہ ہی گولیاں بر سائیں اور نہ بم پھینکیں۔آپ کی بادشاہی دنیا کی تمام بادشاہتوں سے مختلف ہے۔

یُوحنّا ۱۸: ۳۷۔۳۸
۔۳۷ پیلاطُس نے اُس سے کہا: پس کیا تُو بادشاہ ہے؟ یسُوع نے جواب دیا:تُو خود کہتا ہے کہ میں بادشاہ ہُوں۔ میں اَس لیے پیدا ہُوا اور اس واسطے دنیا میں آیا ہُوں کہ حق پر گواہی دُوں۔ جو کوئی حقّانی ہے، میری آو از سُنتا ہے۔ ۳۸ پیلاطُس نے اُس سے کہا: حق کیا ہے؟

پیلاطُس یسُوع کے دعوے کا مطلب سمجھ نہ سکا لیکن وہ جان گیا کی ملزم نے بادشاہ ہونے کا اقرار ضرور کیا لیکن اس بادشاہی کی وضاحت نہیں کی۔یسُوع نے مزید کہا:” تُونے میرا راز جانا اور میرے کلام کو سمجھا ہے۔بادشاہ اپنی بادشاہی کا مالک اور آقا ہوتا ہے، میری بادشاہی اس جھوٹ اور فریب سے بھری ہُوئی دنیا کی نہیں ہے کیونکہ میں سچّائی کا بادشاہ ہُوں” ۔

تب یسُوع نے گواہی دی کہ آپ کے وجود کی ابتدا کنواری مریم سے جنم لینے سے نہیں ہُوئی بلکہ آپ ہماری دنیا میں آنجہاں سے تشریف لائے ہیں۔آپ اپنے باپ سے ازل سے وجود میں آئے۔آپ ایزدی سچّائیاں جانتے ہیں۔یسُوع خدا کی سچّائیوں کی گواہی دیتے ہیں۔چونکہ آپ ازل سے موجود ہیں، اس لیے آپ صادق القول گواہ ہیں۔لیکن پیلاطُس نے قہقہا لگا کر کہا:ـسچّائی کیا ہے؟ـ اس گورنر نے ریاکاری اور غدّاری اس قدر کثرت سے دیکھی تھی کہ سچّائی پر سے اس کا ایمان ہٹ گیا تھا۔لیکن یسُوع نے جو آسمانی سچّائیوں کے صادق القول گواہ ہیں, خاطر جمع رکھی اور ہم پر اپنے باپ کا نام ظاہر کیا۔

دعا: خداوند یسُوع، آپ میرے بادشاہ ہیں اور میں آپ کا اپنا ہُوں۔ مجھے اپنی شرافت کا غلام بنا لیجیے اور اپنی سچّائی میں مجھے ثابت قدم رکھیے۔

سوال ۱۱۲۔ یسُوع کیسے اور کن معنوں میں بادشاہ ہیں؟

www.Waters-of-Life.net

Page last modified on May 28, 2012, at 12:34 PM | powered by PmWiki (pmwiki-2.3.3)